Wednesday, February 22, 2017

insaan ya bandar ???




انسان یا بندر۔۔۔۔۔۔۔!


ملحدین نے یہ فرض کیا کہ انسان بندر نما مخلوق سے ارتقا پذیر ہوا ہے۔ مگر وہ بندر کہاں سے آیا؟ آسمان سے ٹپکا؟ یہ ایک اور مسلہ تھا جو ملحدین کو درپیش ہوا۔ اس کے حل کے لیے انہوں نے کہا کہ یہ بندر نما بھی اپنے سے پہلے کسی مخلوق سے ارتقا پذیر ہوا۔۔۔ اور وہ کس سے؟ وہ اس سے بھی پہلے سے۔ آخر کار یہ ترتیب مٹی کے گارے میں جا کر ختم ہوئ۔ یعنی جانداروں کی ابتدا اس مٹی کے گارے، گہرے سمندریشورے سے ہوئ۔ اس سے نظریہ شورا کی بھی ابتدا ہوئ۔  یہ وہی ملحدین ہیں جو انسان کے مٹی سے بننے پر ٹھٹھا کرتے ہیں۔۔۔! اور پھر آ گۓ خود اسی ڈگر پر۔ مگر اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ ہر جاندار دوسرے کا رشتے دار قرار پایا۔ بندر ہمارا کزن ہے تو کہیں دور کا چاچا ماما بھی ہو گا۔ یہ جو بکری اور مرغی بڑے شوق سے کھاتے ہیں یہ بھی دور کی خالہ یا پھوپھی ان کی لگتی ہیں۔ ہاۓ رے یہ کیسا ظلم ہوا اپنے ہی اجداد کو کاٹ کھایا۔ بقول شاعر

چاچُو ان کا چمپینزی ہے اور مامُوں ان کا بندر
دوُر کے رشتے داروں میں، موُلی اور چقندر

مگر یہ کلمُوہی ارتقائ ترقی ہماری سمجھ میں نہ پڑی۔ مثلاً ایک چیِل کی ہی مثال لیجیے۔ کہتے ہیں کہ چیِل نے شکاری پنجے بعد میں " اَپڈیٹ" کیے ، ارتقائ عمل سے ، مگر جب تک اس کے شکاری پنجے موجود نہ تھے تو کیا وہ پستول سے شکار کرتی رہی؟ اگر پنجے بعد میں آۓ تو کیا وہ اتنی دیر بھوکی رہی ہو گی؟ اور اگر پہلے ہی شکار کا انتظام کیا تھا تو پنجے اپڈیٹ کرنے کی کیا ضرورت؟ مگر اس سے بھی بڑا مسلہ یہ کہ ایک عقل و شعور رکھنے والے انسان کے اجداد کو لنگور بنا دیا۔۔! بقول شاعر

حضرت ڈارون حقیقت سے نہایت دوُر تھے
ہم نہ مانیں گے آباء آپ کے لنگور تھے

اسی لیے ملحدین بھی اسی شش و پنج میں ہیں کہ انہیں انسان کہا جاۓ یا بندر؟ کیونکہ کہتے تو یہ اپنے آپ کو ارتقائ بندر ہیں مگر حقوق انسانوں والے مانگتے ہیں۔ جیسی نوع ہو گی حقوق بھی ویسے ملیں گے۔ کیونکہ جب کسی کو پتا چلتا ہے کہ یہ ارتقائ بندر ہیں تو وہ بھی پھر اسے بندروں والی عزت دینا شروع کر دیتا ہے۔ کبھی اس انسان کی ڈگڈگی پر ناچتے ہیں تو کبھی اُس بندر کی۔ اس سے تنگ آ کر کچھ ملحد تو بابا ڈارون سے یہ فریاد کرتے نظر آتے ہیں کہ

بندر ہیں تو مِلے ہمیں ہمارا جنگل
آدمی ہیں تو مداری سے چھُڑایا جاۓ

مگر اب تو بہت دیر ہو چُکی۔ ارتقائ تبدیلی ایک مستقل تبدیلی ہے۔ میرے ایک دوست کے وسیع مطالعے کے مطابق اگر کوئ ملحد اب بندر بننا چاہے تو خود کشی تو کر سکتا ہے واپس بندر نہیں بن سکتا۔ اب بندر والا تو آپشن رہا نہیں مداری سے چھُڑانے کا بندو بست ہو سکتا ہے۔ یہ بھی تبھی ممکن ہے جب یہ بندروں والی حرکتیں چھوڑ کر انسانوں والی حرکتیں کرنے لگیں۔ مگر یہ نہایت مشکل ہے کیونکہ ان کے جسم کا تو ارتقا ہو چکا دماغ کا نہیں۔

ارتقا سے بھی آدمی نہ ہوۓ
الہی۔۔! یہ کیسے بندر ہیں

اس لیے موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوۓ یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ان کو بہت جلد جنگلوں میں اپنی آبادی بسانی پڑے گی۔ انسانوں کے درمیان تو یہ رہنے سے رہے۔ اپنے آپ کو بندر سمجھنے سے ان کے نظریات بھی یکسر بندروں والے ہو گۓ۔ کھاؤ، پیو ، عیش کرو۔۔۔! یہ ان کا موقف اور ذندگی کا مقصد ٹھہرا اور انسانوں کی خصلتیں ان میں سے جاتی رہیں۔ اقبال رح نے نظم تو مسلمانوں کے لیے کہی تھی مگر تھوڑی سی تبدیلی سے ملحدوں کے اوپر فٹ بیٹھتی ہے۔

اے ڈارون یہ تیرے پراسرار بندر
جنہیں تونے بخشا ہے زوق جگ ہنسائ
دو نیم جن کی ٹھوکر سے اپنا ہی تن من
سمٹ کر شیطان جن کی خصلت سے رائی
ماں بہن سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے یہ لذتِ بے حیائی
عورت ہے مقصودِ مطلوبِ ملحد
یا تھوڑے سے ڈالر پھر زَن تک رسائ

ایک خاتون ملحدہ لکھتی ہیں ، "میری حقیقت یہ ہے کہ میں ایٹمز کا ایک مجموعہ ہوں جو ایک وقت کے لئے اکٹھا ہوا ہے"۔ افسوس کہ ملحدین نے اپنے آپ کو زرات کے بے ہنگھم مجموعے اور اندھا دھُندھ کَٹھ جوڑ سے زیادہ نہ پہچانا۔۔۔! یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ ایٹموں کے اندر تو شعور نہیں مگر ہمارے اندر شعور ہے، ایٹمز کے اندر ارادہ نہیں ہمارے اندر ارادہ ہے، ایٹمز میں زندگی نہیں ہم میں زندگی ہے۔ ۔۔۔! جب یہ خود کو نہ پہچان سکے تو خدا کو کیونکر پہچانتے۔۔۔! کیا علم و حکمت سے عاری، بے جان فطرت نے انہیں بنایا ہے؟ پہلے خود کو تو پہچان لو پھر خدا کو بھی پہچان لو گے۔۔۔! و فی انفسکم افلا تبصرون۔۔۔!

بجز خدا میں تو ملبے کا اِک سمندر ہوں
ہیں کہتے وہ کہ میں بس ارتقائی بندر ہوں

گر ارتقاء یہ حقیقت ہے، تو یہ بتلاؤ
میں آدمی کیوں ہوں!؟ کیوں نہیں چقندر ہوں

نہیں ہوں میں کوئی خودرُو کہ یہ نہ سوچوں اب
کدھر سے آیا، گیا، موج زا سمندر ہوں!؟

اگر یہی ہے تو پھر کیوں ہے تشنہ کامی سی
قصد ہے کیا، کیونکر، کیوں جہاں کے اندر ہوں!؟

طلسم خانۂ ہستی کی نبض گویا ہے
'میں شاخ و گل میں نہاں معنیِ سمندر ہوں'

مری جو تلفیِ حق ہوئی اس کا بدلہ اب
میں کیسے لُوں!؟ کہ میں دارا، نہ میں سِکندر ہوں

نہیں ہے رُوح حقیقت، تو بول اے 'ہاتف'
لگے ہے کیوں کہ مقیّد جسَم کے اندر ہوں!؟

( بنیامین مہر)

(شعرا۔ اکبر الہ آبادی، مہران درگ، ذہین احمق آبادی ہاتف، بذات خود)


Thursday, October 6, 2016

trinity

اعتراضات کے جوابات۔ اعتراض 12
قرآنِ کریم اور مسیحی عقیدہ تثلیث


سید امجد حسین نامی ایک ملحد مصنف، جو فیس بُک پر اسلام کے خلاف لکھنے والوں میں پیش پیش ہے، کی جانب سے قرآنِ پاک اور رسول اللہ (ﷺ) پرکئی ایک اعتراضات اُٹھائے گئے ہیں اور اِن اعتراضات پر مشتمل ایک فہرست قلمبند کی گئی ہے۔ یہاں راقم الحروف کی جانب سے ایک انتہائی اہم نوعیت کے اعتراض کا جواب دیا جا رہا ہے۔ لہٰذا اُمید ہے کہ قارئین آخر تک پڑھ کر غیر جانبداری سے نتائج نکالیں گے۔
اِس سلسلے کی پہلی کڑی میں ہم قرآن میں بیان کردہ ”تصورِ تثلیث“ پر بات کریں گے۔ چونکہ اسلام اور مسیحیت دونوں ہی تبلیغی ادیان ہیں اور دونوں کے درمیان علمی وعملی جنگ زمانہءِ قدیم سے جاری ہے، لہٰذا دونوں کی جانب سے ایک دوسرے پر اعتراضات کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ اس عمل میں مسیحیت کا طرزِ عمل شدت پسندی اور نفرت وحقارت کا حامل ہے، جبکہ مسلمانوں کی جانب سے مسیحیوں کو ”اہلِ کتاب“ کے درجہ پر فائز کیے جانے کے سبب قدرے نرمی برتی جاتی رہی ہے۔ دلچسپ امر ہے کہ ”تثلیث“ (Trinity) کے قرآنِ کریم کے پیش کردہ تصور کے غلط ہونے کا راگ مسیحی علماء ایک عرصے سے الاپ رہے ہیں اور اب یہی "ماچس" ملحد "بندروں" کے ہاتھ میں آ چکی ہے۔ تاہم اِس موضوع پر گفتگو کیے جانے سے قبل اِس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ سبھی اعتراضات نئے نہیں ہیں، بلکہ پرانی شراب کو نئی بوتل میں ڈال کر پیش کیا گیا ہے۔ دورِ جدید کی اسلامی Apologetics کو اُٹھا کر دیکھا جائے تو سطحی سوچ کے حامل انسان کو بھی یہ بات روزِ روشن کی طرح عیّاں ہو جاتی ہے کہ ایسے سبھی اعتراضات (اور بے شمار خرافات) کا تسلی بخش جواب دیا جا چکا ہے۔ لیکن نفسِ معاملہ یہ ہے کہ اپنی ”ڈھیٹ“ فطرت کی وجہ سے یہ معترض بار بار منہ کی کھانے کے باوجود اُنہیں اعتراضات مختلف حیلے بہانوں سے گھڑتے اور پیش کرتے رہتے ہیں۔ یعنی اِس سرگرمی کا کوئی ماحصل نہیں، سوائے اِس کے کہ ہمارے قارئین اپنے ایمان پر اطمینان اور یقین رکھ سکیں اور ایمان کسی قسم کے خطرات سے دوچار نہ ہو۔
اِن سبھی اعتراضات کو "ابنِ ورق" کے قلمی نام کے حامل ایک اسلام دشمن مصنف نے مختلف مستشرقین کی کانٹ چھانٹ کر کے اپنی مرضی کا مواد سیاق وسباق کی ذرا بھی پرواہ کیے بغیر اُٹھا لیا اور اپنی تدوین کردہ نصف درجن سے زائد کُتب میں قلمبند کر دیا۔ اسلام کے خلاف زہرافشانی کرتی اِن کُتب میں چند معروف کُتب کے نام یہ ہیں:
The Quest for Historical Muhammad
Why I am not a Muslim
What the Koran Really Says
The Origins of the Koran
Which Koran?
Koranic Sources
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں عنوانات میں ہی سارا زور قرآنِ کریم کو جھٹلانے پر لگا دیا گیا ہے۔ یہی وہ مآخذ ہیں جہاں سے ملحدین مواد اُٹھا کر اپنے نام سے شائع کرتے ہیں، یا پھر انٹرنیٹ پر موجود چند عیسائی ویب سائٹس اِن کی مرغوب غذا، یعنی اسلام مخالف مواد فراہم کرنے میں پیش پیش نظر آتی ہیں۔ قارئین پر واضح کرتا چلوں کہ یہ سب باتیں آج سے دو سو سال پہلے تب شروع ہوئی تھیں جب "مستشرقین" نے مشرقی ادیان بالخصوص اسلام کا تنقیدی مطالعہ شروع کیا تھا اور اِس عمل کے لیے بعینہ وہی اُصول اپنائے گئے تھے جو یورپ کے روشن خیالوں نے بائبل مقدس کے حقیقی تاریخی مآخذوں کھوجنے کے لیے اپنائے تھے۔ یعنی مسیحیت کے پروکار اِن مستشرق علماء نے اپنی الہامی کتاب کے خلاف پہلے سے استعمال شدہ حربوں کو اسلام پر جارحیت کے لیے استعمال کیا اور اسلام کو مغربی طرز کی منہ زور تکنیک "Deconstructionism" کا نشانہ بنا ڈالا۔ اِس طرح کوشش کی گئی کہ کسی طرح اسلام کے زمینی مآخذوں تک پہنچا جائے، تاہم اِس کوشش میں سبھی متعصب مستشرقین کو منہ کی کھانی پڑی۔ لہٰذا مستشرقین کی پوری تحریک کی کوشش ناکام گئی اور اِسلام بجائے پیچھے ہٹنے کے پوری آب وتاب سے مزید پھیلنے لگا۔
بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ضروری ہے کہ ملحد مصنف کا اعتراض ایک دفعہ پڑھ کر اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے۔ ملحدوں کے سرخیل سید امجد حسین فرماتے ہیں:
اختراع محمدی تثیلیث: پہلے اس ضمن میں ہم قرآن کی کچھ آیات دیکھ لیتے ہیں: • "اور جب خدا فرمائے گاکہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود مقرر کرو؟ ……’’(سورہ المائدہ: 116) • ”اے اہل کتاب! تم اپنے دین میں حد سے نہ نکلو اور اللہ کی شان میں سائے پکی بات کے نہ کہو، بے شک مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا اللہ کا رسول ہے اور اللہ کا ایک کلمہ ہے جسے اللہ نے مریم تک پہنچایا اور اللہ کی طرف سے ایک جان ہے، سو اللہ پر اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لاؤ اور نہ کہو کہ خدا تین ہیں، اس بات کو چھوڑ دو تمھارے لیے بہتر ہوگا، بے شک اللہ اکیلا معبود ہے، وہ اس سے پاک ہے اس کی اولاد ہو، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین ہے اور اللہ کارساز کافی ہے۔ ’’(سورہ النسا، 171) • ”جنھوں نے کہا اللہ تین میں سے ایک ہے، بے شک وہ کافر ہوئے حالاں کہ سوائے ایک معبود کے اور کوئی معبود نہیں اور اگر وہ اس بات سے باز نہ آئیں گے جو وہ کہتے ہیں تو ان میں سے کفر پر قائم رہنے والوں کو دردناک عذاب پہنچے گا۔’’ (سورہ المائدہ: 73) محولہ بالا آیات سے صاف عیاں ہے کہ محمد نے کچھ بدعتی عیسائی فرقوں کے عقائد کے متعلق سن رکھا تھا کہ وہ خدا کو تین (تثلیث) گمان کرتے تھے، یعنی خدا، مریم اور عیسیٰ، جب کہ یہ عقیدہ عیسائیت کے بنیادی عقیدے کے بموجب کفر ہے۔ توریت کتاب استشنا، باب 6، آیت 4، میں صاف صاف لکھا ہوا ہے کہ ‘‘سن اے اسرائیل، خداوند ہمارا خدا اکیلا خداوند ہے۔’’ انجیل مرقس، باب 10، آیت 29 میں عیسیٰ نے اسی آیت کا حوالہ دے کر بڑی تاکید کے ساتھ اس کی تصدیق کی، ‘‘تمھارا اکیلا رب ہے۔’’ آج بھی کوئی راسخ العقیدہ عیسائی مریم کی الوہیت کا قائل نہیں ہے۔"
یہاں بات کو اِس کی حتمی شکل میں لے کر جانے سے پہلے سید امجد حسین صاحب کو میں یہ چیلنچ دے رہا ہوں کہ وہ اُس "بدعتی" عیسائی فرقہ کا نام بتا دیں جو اِنہی تین (باپ، ماں اور بیٹا) کو خدا تسلیم کرتا تھا۔ صرف ایک ایسے فرقہ کا تذکرہ ہی کر دیں، جس کے عقائد بقول اُن کے یہی تھے کہ اللہ کے ساتھ ساتھ مسیح اور مریم دونوں شریکِ تثلیث ہیں اور "خداوند" ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جہاں امجد حسین موصوف اُوپرایک جانب عیسائی بدعتی فرقہ کا ذکر کر کے تثلیث کی محولہ بالا خاندان نما تکونی شکل کی تصدیق کرتے ہیں، وہیں یہ ملحد صاحب یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ عیسائیوں کا ایسا کوئی عقیدہ نہیں جس میں حضرت مریم کو خدا کا ایک رُوپ یا عین ذاتِ خدا کا حصہ تسلیم کیا گیا ہو۔ وہ اِس دعویٰ کی تصدیق کے لیے ”راسخ العقیدہ عیسائی“ کی اصطلاح استعمال کر کے جہاں علمیت جھاڑتے ہوئے نظر آتے ہیں، وہیں اپنی جہالت کا اعلان بھی ببانگِ دُھل کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور یقین جانیں اِس کہاوت کی مثال امجد حسین نامی ملحد کی محولہ بالا خود ساختہ تاریخ نگاری سے بہتر اور کوئی نہیں ہو سکتی۔
چونکہ قرآن ساتویں صدی میں نازل ہوا اور اُس وقت مسیحی دُنیا بازنطینی سلطنت کے زیرِ سایہ تھی جو سلطنتِ روما کی مشرقی باقیات پر مشتمل تھی۔ مغربی باقیات سیاست کی جگہ مذہب نے ترکہ میں پائی تھیں اور روم میں ”پوپ“ کو مسیحی دُنیا کی سرداری حاصل ہو گئی تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جنہیں آج راسخ العقیدہ کی اصطلاح کا سہارا لے کر ملحد معترض ”عیسائی“ کہہ رہے ہیں، کہیں وہ لوگ بعد کے زمانہ کی پیداوار تو نہیں اور کہیں یہ حوالہ ہی تاریخی غلطی یعنی Anachronism پر مبنی افسانہ تو نہیں؟ امجد حسین سے سوال ہے کہ کیا آج تک مسیحیت میں کوئی ایسی نظریاتی بنیاد سب میں باہم قابلِ قبول رہی ہے کہ جس کی بنیاد پر ”راسخ العقیدہ“ اور ”بدعتیوں“ کا فیصلہ کیا جا سکے؟
بات کو آگے لے کر چلتے ہیں۔ مسیحیت میں پہلا پوپ ”پطرس رسول“ (Apostle Peter) کو کہا جاتا ہے اور اِس بات کا حوالہ انجیلِ متی باب 16، فقرہ 18 سے دیا جاتا ہے جہاں حضرتِ مسیح پطرس کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیں کہ اِس چٹان (پطرس) پر میں اپنی کلیسیا تعمیر کروں گا۔ زمانہء پطرس سے آج تک پوپ کیتھولک مذہب کا اٹوٹ سلسلہ رہے ہیں اور آج بھی عیسائی دُنیا کا غالب مذہب رومن کیتھولک مسیحیت ہی ہے۔ ساتویں صدی میں جب قرآن نازل ہوا تو اُس زمانہ میں کیتھولک مسیحیت ہی مسیحی دُنیا کی ”راسخ العقیدہ“ شکل تھی۔ بازنطینی سلطنت بھی عقائد کے معاملات میں کیتھولک مذہب سے مختلف نہ تھی، اور محض نام میں ”آرتھوڈکس“ کہلوانا پسند کرتی تھی، جو کہ خالصتاً سیاسی مقاصد کے لیے تھا۔ اِسی طرح آرتھوڈکس کا سربراہ ”پوپ“ کی بجائے ”Patriarch“ (پیٹریارک) یعنی ” سربراہ“ کہلواتا تھا۔
اِس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ اصل تاریخی پسِ منظر کو واضح کر دیا جائے، جس کی نقشہ کشی میں ملحد مصنف نے یا تو دانستہ ڈنڈی ماری ہے، یا پھر بےچارے کے پاس علم نہیں اور وہ ”چھاپہ مار“ واقع ہوا ہے۔ لیکن یاد رکھیے گا کہ ”نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے!“ بہرحال دونوں صورتوں میں ملحد معترض اِس قابل قرار نہیں پاتا کہ اُس کو سنجیدگی سے لیا جائے۔
اب ہم اپنے اصل مؤقف کی طرف آتے ہیں۔ کیتھولک مسیحیت نہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ”پاکیزہ کنواری پیدائش“ کی قائل ہے، بلکہ اُن کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ حضرت مریم کی پیدائش بھی میاں بیوی کے جنسی اختلاط کے بغیر ہوئی تھی، یعنی کنواری مریم بھی اپنی بیدائش میں انسانی جنسیت کے داغ سے پاکیزہ ہیں۔ یہ عقیدہ تیسری صدی عیسوی تک پروان چڑھ چکا تھا، جبکہ اِس سے پہلے بھی اِس کے ہلکے پھلکے حوالہ جات ملتے ہیں۔ یہی وہ عقیدہ تھا جو آگے چل کر کیتھولک دُنیا کے معروف ترین عقیدہ ”چونکہ مریم تھی خدا کی ماں، لہٰذا از خود خدا“ (Mariology) کی منطق پر قائم کردہ عقیدہ میں تشکیل پا گیا۔ اِس عقیدہ کو کیتھولک مذہب میں ”خدا کو پیدا کرنے والی“ (Mother of God) کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے اور اِس کے لیے جو یونانی مذہبی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے وہ Θεοτόκος یعنی Theo-Tokos ہے۔ Theo یونانی زُبان میں ”خدا“ کو کہتے ہیں، جبکہ Tokos ماخذ یا جنم دینے والے ذریعہ کو کہتے ہیں۔ اِس عقیدہ کے لیے علمی جواز یہ فراہم کیا جاتا ہے کہ خدا کو خدا کے ہی کسی رُوپ کے علاوہ کوئی اور جنم نہیں دے سکتا۔ یہ عقیدہ آج بھی مسیحیت کے 60٪ سے زائد ماننے والوں کے عقائد کا حصہ ہے اور وہ سب حضرت مریم کو ذاتِ خدا کا حصہ اور شفاعت و نجاتِ انسانی کا اہم جزو تسلیم کرتے ہیں۔ اِس روایت کی ابتداء شام میں ہوئی تھی۔
قرآنِ کریم نے اپنے نزول کے وقت مسیحی مذہب کی اسی اجتماعی صورتحال پر تبصرہ کیا ہے، کیونکہ اُس وقت حضرت مریم کی پوجا وپرستش آج کی نسبت زیادہ شدت سے ہوتی تھی، اور اِس کے لیے شام وایشیائے کوچک اور بحیرہء روم کے مشرقی ساحل خاص طور پر شہرت رکھتے تھے۔ قرآن نے اِس صورتحال پر ایک عمومی انداز اختیار کرتے ہوئے اللہ کے علاوہ پرستش کی جانے والی معروف مسیحی ہستیوں کا ذکر کیا ہے اور جس انداز میں حضرت عیسیٰ ؐ کے الفاظ پیش کیے گئے ہیں وہاں ”اللہ کے علاوہ مجھے (عیسیٰ ؑ) اور میری ماں (مریمؑ) کوخدا“ جیسی ترکیب استعمال کی گئی ہے، جو انتہائی معقول ہے۔ اِس امر کی تصدیق کے لیے تاریخ کی شہادت موجود ہے کہ یہ دو ہستیاں حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم ہی تھیں، جن کی باقاعدہ بُت پرستانہ انداز میں عبادت کی جاتی تھی، کیونکہ اِس طرح مسیحیوں کے نزدیک اُن کے الوہیت کے درجہ کا بہترین اظہار ہوتا تھا۔ اِن کی پوجا نہ صرف اُس زمانہ میں کیتھولک مسیحیت میں پاپائیت (Papacy) کے زیرِ سایہ سرکاری طور پر کی جاتی رہی، بلکہ یہ سلسلہ آج بھی دُنیا بھر میں جاری ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ اِس آیتِ مبارکہ سے ”تثلیث“ اخذ کرتے ہیں وہ اِس بات پر غور ہی نہیں کر پاتے کہ سورۃ مائدہ کی مذکورہ آیت میں ”تثلیث“ لفظ کا ذکر تک موجود نہیں ہے، لہٰذا آیت حضرت مریمؑ کی شخصیت کی پوجا پر ایک عمومی تبصرہ ہے جو تثلیث سے آزاد اپنی تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ آئیے اِس آیتِ مبارکہ پر ایک نظر دوبارہ ڈالتے ہیں۔
جب اللہ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی معبود مقرر کرو؟“ (سورۃ مائدہ، 116)
تثلیث کا ذکردرحقیقت ایک دوسری آیتِ مبارکہ میں کیا گیا ہے اور یہاں حضرت مریم کا تذکرہ سِرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
بے شک کافر ہیں وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ اللہ تین خداؤں میں تیسرا ہے۔“ (سورۃ مائدہ، 73)
چونکہ یہاں حضرت مریم کا ذکر نہیں کیا گیا، تو الہامی صحائف کے عمومی اصولِ تفسیر، جس کا اطلاق بائبل مقدس پر بھی ہوتا ہے، کی رُو سے یہ سمجھنا کہ مریم ہی کو یہاں بھی اللہ اور عیسیٰ یعنی باپ اور بیٹا کے ساتھ تیسرا ”خداوند“ قرار دیا جا رہا ہے، ایک غلط سمت میں سوچ کے گھوڑے دوڑا کر افسانے گھڑنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا یہاں قیاس کا حقیقی تصورِ تثلیث کی طرف جانا ہی فی النفسِ معاملہ ایک مسلمہ اصول قرار پاتا ہے۔
اِسی طرح یہاں یہ معلوم کرنا بھی ازحد ضروری ہے کہ مسیحی تثلیث کا تیسرا جزو کس ہستی کو مانتے ہیں۔ مسیحیت چوتھی صدی کے بعد سے کلیسیاء کی باقاعدہ سند کے ساتھ اجتماعی طور پر ”رُوح القدس“ کو تثلیث کا تیسرا جزو قرار دیتی ہے۔ تاہم یہ امر دلچسپی کا حامل ہے کہ رُوح القدس ایک مجرد عقیدہ، فلسفہ یا چیز ہے، جس کی کوئی جسمانی یا کنکریٹ تشریح نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا رُوح القدس کی منظم پُوجا کیا جانا ممکن ہی نہیں تھا۔ نہ تو یہ بات بُت پرستوں کو اپیل کر سکتی تھی اور نہ ہی مسیحی لوگ کلیسیاء کے علاوہ کوئی ایسا معبد بنا سکتے تھے جو رُوح القدس کے نام منسوب ہواور جہاں خدا باپ اور خدا بیٹے کے علاوہ کسی تیسرے کی عبادت کی جا سکے۔ مسیحی زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا جسم رُوح القدس کا معبد/ٹیمپل ہے۔ اِس لیے اِس تجرد پرایک عام ذہن کا ٹِک پانا نہ اُس زمانے میں ممکن تھا اور نہ ہی آج ایسا ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسیحیت کے پینٹی کاسٹل فرقہ کے علاوہ آج بھی رُوح القدس کا تذکرہ مسیحی حلقوں اور کلیساؤں میں خال خال ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا قرآن نے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے نہ صرف مسیحیت کی ایک حقیقی تصویر کشی کی بلکہ ساتھ ہی ساتھ ایک ہی وار سے ”شرک“ کی اِس عجیب و غریب یونانی دیومالائیت سے ماخوذ شکل کو بھی مسترد کر دیا۔ یاد رہے کہ قرآنِ کریم نے ”جبرائیل“ کو رُوح القدس قرار دیا ہے، جو کہ مخلوقِ الہٰی میں سے ایک ہیں۔
بات ختم کرنے سے پہلے ملحد مصنف کی ایک اور مضحکہ خیز حرکت کا ذکر کر دیا جانا ایک علمی لطیفہ سے کم نہ ہو گا۔ مذکورہ بالا عبارت جو ملحد معترض کے اعتراضات کی حامل ہے، میں ایک جگہ عہد نامہ قدیم یعنی یہودی ”تناخ“ کا ذکر کرتے ہوئے مسیحیوں کے خدا کی جو تعریف مصنف نے کی ہے اُس کو تو مسیحی خود بھی تسلیم نہیں کرتے۔ یہاں تو ملحد صاحب مسلمانوں سے بھی زیادہ ”مواحد“ معلوم ہوتے ہیں، جو مسیحیوں کو ”خدائے واحد“ کا پرچار عہدِ قدیم سے کر کے یہ درس دے رہے ہیں کہ بھئی جس خدا کو تم تین کہہ کر مان رہے ہو، وہ تو درحقیقت بائبل مقدس کی کتابِ استثناء کی رُو سے ”واحد“ ہے اور اُس کا کوئی ہمسر نہیں۔ واہ رے ملحد، خدا نے تہمارے ہاتھ سے ہی توحید کا کیسا خوبصورت اقرار کروا دیا اور وہ جملہ لکھوا دیا جو تم اپنے طور پر وجودِ خدا اور کلامِ خدا کے خلاف لکھنا چاہ رہے تھے۔(سید وقّاص حيدر)

Wednesday, September 28, 2016

PART: 1,2,3 : क्रमागत उन्नति ( EVOLUTION ) نظریہ ارتقا


قسط۔1.نظریہ ارتقا 



وہ لوگ جنہوں نے " نظریہ ارتقا" یا "نظریہ ڈارون" سن رکھا ہے، انہیں یہ خیال آ سکتا ہے کہ یہ تصورات صرف حیاتیات سے تعلق رکھتے ہیں اور روزمرہ زندگی میں کوئ اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہو گی کیونکہ نظریہ ارتقا حیاتیاتی تصور سے کہیں بڑھ کر ایک ایسے بد دیانت فلسفے کے لیے ٹیک اور سہارا بنتا ہے، جس نے لاتعداد زہنوں پر حکمرانی کی ہے۔ یہ وہ فلسفہ " مادہ پرستی" ہے جو ہمارے کیوں اور کیسے وجود میں آنے کے جوابات کے بارے میں غیر حقیقی نظریات کا حامل ہے۔ اس فلسفے کی روُ سے مادہ پرستی میں سواۓ مادے کے اور کچھ بھی نہیں ہے اور مادہ ہر شے کا جوہر ہے چاہے وہ نامیاتی ہو یا غیر نامیاتی۔ اس تمہید سے آغاز کیا جاۓ تو یہ ایک ایسے خالق بزرگ و برتر کے وجود کا انکار کرتا ہے جسے اللہ کہتے ہیں۔ ہر شے کو مادے کی سطح تک لانے سے یہ تصور انسان کو ایک ایسی مخلوق میں ڈھال دیتا ہے جو صرف مادے کی طرف توجہ دے اور اخلاقی اقدار سے خواہ وہ کسی بھی قسم کی ہوں منہ موڑ لے۔ یہ ان بربادیوں کی ابتدا ہے جو انسانی زندگی پر نازل ہوں گی۔ مادہ پرستی کے اثرات صرف افراد تک ہی محدود نہیں ہیں۔ بلکہ مادہ پرستی ان بنیادی اقدار کو منہدم کرنے کے در پے رہتی ہے جن پر کسی ریاست اور معاشرے کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسے بے روح اور بے حس معاشرے کو جنم دیتی ہے جو صرف مادے کی طرف توجہ دیتا ہے۔ اس قسم کے معاشرے کے افراد چونکہ کبھی بھی مثالیت پسندانہ تصورات مثلاً حب وطن ، اپنی قوم سے محبت ، عدل و انصاف ، وفاداری، دیانتداری ، جزبہ ایثاروقربانی، عزت و توقیر یا اعلی اخلاق نہیں رکھتے۔ اس لیے جس سماجی نظام کی یہ تشکیل کرتے ہیں اس کے مقدر میں بہت جلد بکھر جانا ہوتا ہے۔ ان وجوہ کی موجودگی میں مادہ پرستی کسی قوم کی سیاسی و سماجی نظام کی بنیادی اقدار کے لیے شدید خطرات کا سبب بنتی ہے۔ 
مادی پرستی کی ایک اور بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ ان نراجی اور نزاعی نظریات کو سہارا فراہم کرتی ہے جو ریاست اور اس کے لوگوں کے دوام کو نشانہ بناتے ہیں۔ ان نظریات میں اشتراکیت جو سر فہرست ہے ، مادہ پرست فلسفے کا قدرتی و سیاسی نتیجہ ہے۔ ریاست اور خاندان جیسے مقدس تصورات کو کالعدم قرار دینے کی کوشش میں یہ ہر قسم کے علیحدگی پسندانہ کاموں کے لیے بنیادی نظریہ تشکیل دیتی ہے جو ریاست کے یکجہتی ڈھانچہ کے خلاف سرانجام دیے جا رہے ہوں۔
اکرم مارکس نے اس بات کو واضح کیا کہ نظریہ ڈارون نے مادہ پرستی کو ایک ٹھوس بنیاد فراہم کی جو اشتراکیت کے لیے بھی مضبوط بنیاد ثابت ہوئ۔ اس نے اپنی کتاب "داس کیپیٹا" کا انتساب ڈارون کے نام کرتے ہوۓ اس سے اپنی ہمدردی کا اظہار کیا۔ یہ کتاب اس کا عظیم کام تصور كيا جاتا هے۔ اس کے جرمن ایڈیشن میں وه لكھتا ہے: " ایک مخلص مداح کی طرف سے چارلس ڈارون کے لیے"۔ 
نظریہ ارتقا مادہ پرستی کی اس نام نہاد سائنسی بنیاد کو وجود بخشتا ہے کہ اشتراکی نظریے کا انحصار اس پر ہے۔ نظریہ ارتقا کو ایک حوالے کے طور پر لیتے ہوۓ نظریہ اشتراکیت اپنی صفائ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہوۓ اپنے نظریے کو معقول اور درست پیش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اشتراکیت کے بانی کارل مارکس نے ڈارون کی کتاب کے لیے " نوع انسانی کا آغاز" (the origin of species ) لکھی جس نے نظریہ ارتقا کی بنیاد رکھتے ہوۓ تحریر کیا: 
"
یہ وہ کتاب ہے جس میں ہمارے نقطہ نظر کے لیے قدرتی تاريخ میں بنیاد موجود ہے" 
درحقیقت ہر قسم کے اشتراکی تصورات، جن میں مارکس کے تصورات کو اولین حیثیت حاصل ہے، اس وجہ سے مکمل طور ہر اپنی موت آپ مر چکے ہیں کیونکہ نظریہ ارتقا جو دراصل ۱۹ ویں صدی کا عقیدہ ہے اور جس پر اس مادے کی پوری عمارت کھڑی ہے وہ جدید سائنسی دریافتوں سے پوری طرح باطل قرار دیا جا چکا ہے۔ سائنس نے اسے مسترد کر دیا ہے۔ وہ اس مادہ پرستانہ مفروضے کو مسلسل رد کیے جا رہی ہے۔ جو اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ سواۓ مادے کے کوئ اور شے وجود نہیں رکھتی اور سائنس سے اس کا رد اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ تمام جاندار کسی اعلی و برتر ہستی نے تخلیق کیے ہیں۔ 
اس سیریز کا مقصد یہ ہے کہ ان سائنسی حقائق کو سامنے لایا جاۓ جو تمام شعبوں میں نظریہ ارتقا کی تردید کرتے ہیں۔ اور اس نام نہاد " سائنس" کے در پردہ،اساسی و بنیادی اور اصل مقاصد سے لوگوں کو آگاہ کیا جاۓ، جو درحقیقت ایک دغا و فریب کے سوا کچھ نہیں۔

نظریہ ارتقا قسط۔ 2

نظریہ ارتقا کی مختصر تاریخ.
ارتقا پسند کی فکر کی جڑیں بطور ایک عقیدہ اور نظریے کے عہد عتیق تک جا پہنچتی ہیں، جو تخلیق کی حقیقت سے برابر انکار کرتا رہا ہے۔ قدیم یونان میں زیادہ تر لا مزہب فلسفیوں نے ارتقا کے نظریے کا دفاع کیا۔ جب ہم فلسفے کی تاريخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ارتقا کا نظریہ بہت سے ملحدانہ فلسفوں کی ریڑھ کی ہڈی بن جاتا ہے۔ 
تاہم یہ قدیم ملحدانہ فلسفہ نہیں بلکہ اللہ پر یقین کی بنیاد پر قائم ہے جس نے جدید سائنس کو جنم دینے اور اس کی ترقی میں ایک محرک کا کردار ادا کیا ہے۔ بہت سے افراد جو جدید سائنس میں پہل کار تھے اللہ کی ہستی کو مانتے تھے، اور سائنس کے مطالعہ کے دوران انہوں نے کائنات کو دریافت کرنا چاہا جسے اللہ نے تخلیق کیا ہے۔ انہوں نے اللہ کے قوانین کو سمجھنے اور اس کی تخلیق کی تفصیلات جاننے کی کوشش کی۔ ماہرین فلکیات یا ہیت دانوں مثلاً Leonardo da Vinci کوپرنیکس ، کیپسلر اور گیلیلیو ، باباۓ قدیم نسلیات "curvier" جسے نباتات اور علم حیوانات میں پہل کار مانا جاتا ہے ، "Linnaeus" اور آئزہ نیوٹن ، جسے " وہ عظیم سائنسدان تصور کیا جاتا ہے جو کبھی اس دنیا میں آیا تھا"۔ ان سب نے سائنس کا مطالعہ نہ صرف اللہ کی ہستی پر یقین رکھتے ہوۓ کیا بلکہ وہ اس بات پر بھی ایمان لاۓ کہ یہ پوری کائنات اس خالق کی تخلیق کے نتیجے میں وجود میں آئ۔ (حوالہ۔ 5)
البرٹ آئن سٹائن کو ہمارے عہد کا عظیم ترین نابغہ تصور کیا جاتا ہے۔ ایک اور ایسا خدا پرست سائنسدان تھا جو اللہ پر یقین رکھتا تھا وہ یوں لکھتا ہے : " میں اس گہرے عقیدہ و ایمان کے بغیر ایک مستند سائنسدان کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس صورتحال کو ایک خیال کے زریعے یوں بیان کیا جا سکتا ہے: " سائنس بغیر مزہب کے لنگڑی ہے"۔ (حوالہ۔ 6)
جدید طبیعات کے بانیوں میں سے ایک جرمن طبیعات دان میکس پلانک نے کہا کہ ہر وہ شخص جو سنجیدگی سے سائنس کا مطالعہ کرتا ہے اسے سائنس کی عمارت کے دروازے پر ایک مختصر سا جملہ لکھا کو ملتا ہے: " یقین و ایمان کے ساتھ زندہ رہو"۔ یہ یقین و ایمان ایک سائنسدان کی اساسی و بنیادی صفت ہے۔ ( حوالہ 7)
نظریہ ارتقا اس مادہ پرستانہ فلسفے کا نتیجہ ہے جو قدیم مادہ پرستانہ فلسفوں کی بیداری نو کے ساتھ شروع ہوا۔ اور پھر ۱۹ ویں صدی میں دنیا کے طول و عرض میں پھیل گیا۔ جیسا کہ میں پہلے اس طرف اشارہ کر چکا ہوں مادہ پرستی کائنات کی تشریح خالص مادہ پرستانہ عناصر سے کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ چونکہ آغاز سے ہی تخلیق کائنات سے منکر ہے اس لیے یہ اس بات پر زور دیتی ہے کہ دنیا کی ہر شے چاہے وہ جاندار ہو یا بے جان کسی تخلیق کار کے بغیر وجود میں آ گئ ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ ایک حسن اتفاق تھا جس کے نتیجے میں اس نے ایج ترتیب و نظام کی صورت خود بخود پوری کر دی۔ تاہم انسانی زہن کی ساخت اس قسم کی ہے کہ وہ جہاں کہیں ترتیب و نظم دیکھتا ہے اسے کسی منظم کرنے والی ہستی کا خیال آتا ہے۔
ڈارون کے تخیل کی پیداوار:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظریہ ارتقا اور جس طرح اس کا دفاع کیا جاتا ہے اسے پیش کرنے والا ایک انگریز غیر پیشہ ور نیچری یا فطرت پرست چارلس رابرٹ ڈارون تھا۔ 
ڈارون نے حیاتیات کی رسمی تعلیم کبھی بھی حاصل نہیں کی تھی۔ اسے نیچر یا فطرت اور جاندار چیزوں کے موضوع میں صرف شوقیہ حد تک دلچسپی تھی اس کی یہ دلچسپی بڑھی تو اس نے رضاکارانہ طور پر ایک مہم میں شامل ہو کر HMS. BEAGLE نامی بحری جہاز کے زریعے ۱۸۳۲ میں انگلستان سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور پانچ برس کے عرصے میں دنیا کے مختلف خطے دیکھ ڈالے۔ ڈارون مختلف جاندوروں کو دیکھ کر بے حد متاثر ہوا۔ بالخصوص جزائر گیلاپیگوس میں نظر آنے والی سنہری چڑیوں نے اسے بہت متاثر کیا۔ اس کے خیال میں ان کی چونچوں کا مختلف ہونا ان کے وطن یا جاۓ پیدائش کے مختلف ہونے کی وجہ سے تھا جس کے مطابق یہ مختلف شکلوں میں ڈھل گئیں۔ اس خیال کو زہن میں رکھتے ہوۓ اس نے یہ فرض کر لیا تھا کہ زندگی کا آغاز اور جانداروں کی ابتدا اسی تصور " ماحول و جگہ سے مطابقت پزیری" میں پوشیدہ ہے۔ ڈارون کے خیال میں مختلف جانداروں کو اللہ نے علیحدہ علیحدہ تخلیق نہیں کیا بلکہ ان کا ایک ہی مشترکہ جد مورث اعلی یا جد امجد تھا اور بعد میں قدرتی حالات کے نتیجے میں ایک دوسرے سے مختلف ہو گۓ۔ 
ڈارون کے اس قیاس یا بے دلیل دعوے کسی سائنسی دریافت یا تجربے پر مبنی نہ تھی۔ تاہم وقت گزرنے کے بعد اس نے اسے ایک جھوٹے دعوے پر منحصر نظریے کی شکل دے دی تھی جس کے لیے اسے اپنے عہد کے مشہور مادہ پرست حیاتیات دانوں کی حمایت اور حوصلہ افزائ حاصل تھی۔ اس تصور کے مطابق افراد نے اپنے وطن اور جاۓ پیدائش کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال کیا تھا اور پھر بہتر سے بہتر طور پر اپنی خوبیاں بعد میں آنے والی نسلوں کو منتقل کر دی تھیں۔ یہ سود مند اوصاف وقت کے ساتھ ساتھ جمع ہوتے گۓ اور انکوں نے ایک فرد کو اس کے آباؤ اجداد سے بالکل مختلف شکل میں ڈھال دیا تھا۔ ( ان سود مند خوبیوں کے آغاز کے بارے میں اس وقت کچھ معلوم نہ تھا۔) ڈارون کی راۓ میں اس میکانیکی عمل کا نہایت ترقی یافتہ نتیجہ انسانی شکل میں سامنے آیا۔ 
ڈارون نے اس سارے عمل کو " ارتقا بزریعہ فطری انتخاب" کا نام دیا۔ اسے خیال گزرا کہ اس نے " جانوروں کی ابتدا" کا راز معلوم کر لیا ہے۔ اور یہ کہ ایک جاندار کی ابتداۓ آفرینش کسی دوسرے جاندار سے ہوئ۔ اس نے ان خیالات کا اظہار ۱۸۵۹ میں اپنی کتاب the origin of species by means of natural selection "جانداروں کی ابتدا بزریعہ فطری انتخاب" میں کیا۔ 
ڈارون یہ بات خوب جانتا تھا کہ اس کا یہ نظریہ بے شمار مسائل سے دو چار ہو گا اس نے اس کا اعتراف اپنی کتاب کے جس باب میں کیا اس ک عنوان ہے " نظریے کی مشکلات"۔ ان مشکلات کا تعلق بنیادی طور پر رکاز یا فوسل ریکارڈ سے تھا یعنی جانداروں کے ایسے پیچیدہ اعضا جنہیں مماثلت کے زریعے بیان نہیں کیا جا سکتا تھا ( مثلاً آنکھ) اور جانداروں کی جبلتیں۔ ڈارون پڑا پر امید تھا نئ دریافتوں کے زریعے ان مشکلات پر قابو پایا جا سکے گا۔ مگر یہ بات بھی اسے کچھ جانداروں کے لیے نہایت غیر موزوں تشریحات پیش کرنے سے نا روک سکی۔ ایک امریکی طبیعات دان لپسن نے ڈارون کی " مشکلات " پر یوں تبصرہ کیا:
"
جانداروں کی ابتدا کے بارے میں پڑھتے ہوۓ مجھے محسوس ہوا کہ ڈارون تو خود اس کے بارے میں بہت کم یقین رکھتا تھا۔ جس طرح است اکثر پیش کیا جاتا ہے ایسا نہیں ہے۔ 
مثال کے طور پر وہ باب جس کا عنوان " نظریے کی مشکلات" ہے۔ اس میں تو خود اس کے اپنے بارے میں شکوک موجود ہیں۔ میں بطور ایک طبیعات دان کے خاص فریب میں آ گیا تھا جب میں نے اس کے تبصرے کو دیکھا کہ آنکھ کس طرح اوپر کو اٹھی ہو گی۔ ( حوالہ ۸)
اس نظریے کی تشکیل کے وقت ڈارون اپنے پہلے دور کے بہت سے ارتقا پسند حیاتیات داوں سے متاثر رہا ہو گا۔ بالخصوص فرانسیسی حیاتیات دان لامارک سے ، جس کے خیال میں جاندار اپنی زندگی میں جو اوصاف اپناتے ہیں انہیں ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کر دیتے ہیں اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے جیسے زرافہ کی گردنوں کا لمبا ہونا۔ چنانچہ ڈارون نے " حاصل کردہ اوصاف کی منتقلی" کا نظریہ استعمال کیا جسے لامارک نے ایک ایسے عنصر کے طور پر پیش کیا جو جانداروں کو ارتقائ عمل سے گزرتا ہے۔ 
لیکن سچ تو یہ ہے کہ لامارک اور ڈارون دونوں نے ٹھوکر کھوئ کیونکہ ان کے عہد میں زندگی کا مطالعہ صرف بہت قدیم ٹیکنالوجی سے نہایت ہی ناکافی سطح پر کیا جاتا تھا۔ سائنس میں جینیات اور حیاتیاتی کیمیا جیسے شعبے براۓ نام بھی موجود نہ تھے۔ اس لیے ان کے نظریات کا سارا انحصار ان کے تخیل کی قوتوں پر تھا۔ 
جس وقت ڈارون کی کتاب کی باز گشت سنائ دے رہی تھی یک آسٹریائ ماہر نباتات گریگر مینڈل Gregor Mendel نے ۱۸۴۵ میں اوصاف اور خصلتوں کی نسلاً بعد نسلاً منتقلی کے قوانین دریافت کیے۔ اس صدی کے اختتام تک اس بارے زندہ کچھ نا سنا گیا مگر ۱۹۰۰ کے ابتدائ برسوں میں مینڈل کی دریافت نے بڑی اہمیت حاصل کر لی تھی۔ یہ جینیات کی سائنس کا آغاز تھا۔ کچھ عرصے بعد جین اور لونیے(کرو موسوم ) کی ساخت دریافت کر لی گئی تھی۔ ۱۹۵۰ کی دہائ میں ڈی این ای سالمے کی اس دریافت نے جو جینی معلومات فراہم کرت ہے، نظریہ ارتقا کو بہت بڑے بحران سے دو چر کر دیا تھا۔ اس کا سبب ڈارون کی تجویز کردہ زندگی کی ناقابل یقین پیچیدگی اور ارتقائ میکانکی عمل کی باطل دلیل تھی۔ اس طرح کے انقشافات کا منطقی نتیجہ تو یہ نکلنا چاہیے تھا کہ ڈارون ک نظریہ ارتقا منسوخ ہو کر تاریخ کے اوراق میں وقت کی گرد کی تہہ میں ہمیشہ کے لیے چھپ گیا ہوتا، مگر ایسا نہیں ہوا جس کا سب یہ تھا کہ بہت سارے حلقے اسے دہرانے ، اس کی تجدید کرنے اور اس نظریے کو بلند اٹھا کر سائنسی ہلیٹ فارم ہر رکھ دینے ہر مضر تھے۔ ن کوششوں کا بامعنی مقصد صرف اس وقت حاصل ہوتا ہے جب ہمیں یہ احساس ہو کہ نظریے کے پیچھے نظریاتی مقاصد ہیں نہ کہ سائنسی دلچسپی۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
5. Dan Graves, Science of Faith Forty-Eight Biographies of Historic Scientists and Their Christian Faith, Grand Rapids, MI, Kregel Resources.
6. Science, Philosophy. And Religion Asymposium, 1941,CH.13
7. J. Je Vries, Essential of Physical Science, Wm. B. Eerdmans Pub. Co., Grand Rapids, SD 1958, p.15
8, H. S. Lipson, "A Physicist's View of Darwin's Theroy", Evolution Trends in Plants, Vol 2, no.1, 1988 p.6

نظریہ ارتقا قسط۔ 3

نظریہ ارتقا کی مختصر تاریخ.
نوڈارونیت کی جان توڑ کوششیں۔:
بیسویں صدی کے عبد اوّل میں جینیات کی دریافت سے ڈارونی نظریہ شدید بحران کا شکار ہو گیا تھا۔ تاہم سائنسدانوں کا ایک گروہ جو ڈارون سے پوری پوری وفاداری کا تہیہ کر چکا تھا، اس کے حل تلاش کرنے کی کوشش میں لگ گیا۔ وہ سب مل کر ۱۹۴۱ میں امریکی جیولوجیکل سوسائٹی کے بلاۓ گۓ اجلاس میں آۓ۔ ماہرین جینیات مثلاً G.ledyard stebins اور theodosius dobzhansky اور ماہر حیوانیات مثلاً Ernstmayr اور Julian Huxley , ماہرین قدیم حیاتیات George gelord Simpson اور glen l. Jepson اور ریاضیاتی ماہرین جینیات مثلاً رونلڈ فشر اور swall right نے طویل بحث و تمحيص کے بعد بالآخر ان طریقوں پر اتفاق کیا جس سے ڈارونیت کے ساتھ " اتفاق راۓ" ہو سکتی تھی۔ ان طریقوں پر کلیدی حيثیت کے مالک اس گروہ نے ان سود مند اختلافی معاملات کے آغاز پر توجہ مرکوز کی جو جاندار نامیوں کو بتدریج ارتقائ عمل سے گزارتے تھے۔ 
یہ ایک ایسا مسلۂ تھا جس کی وضاحت خود ڈارون نہیں کر سکتا تھا اور اس نے صرف اس قدر کوشش کی تھی کہ لامارک پر بھروسہ کرتے ہوۓ کترا کر نکل جاۓ۔ اس تصور کو اب " اٹکل پچو عمل تغیر" کہا جا سکتا تھا۔ انہوں نے اس نۓ نظریے کو جدید " مصنوعی نظریہ ارتقا " کا نام دیا تھا۔ اس کی تشکیل عمل تغیر کے نظریے کو ڈارون کے قدرتی انتخاب کے دعوے میں شامل کرنے سے ہوئ تھی۔ جلد ہی یہ نظریہ " نو ڈارونیت" کے نام سے مشہور ہوگیا تھا اور جن لوگوں نے اسے فروغ دیا وہ " نیو ڈارونیت پسند" کہلاۓ۔ 
بعد میں آنے والی دہایوں کے دوران نیو ڈارونیت کو ثابت کرنے کی ناکام کوششیں کی جا سکتی تھیں۔ یہ بات پہلے سے ہی علم میں آچُکی تھی کہ " عمل تغیر" یا " اتفاقیہ تبدیلیاں" جو جاندار نامیوں کے جین میں پیدا ہوتیں وہ ہمیشہ ضرر رساں ہوتی تھیں۔ نو ڈارونیت نے تغیر پزیری کے ہزاروں تجربات کے زریعے " سود مند اور مفید عمل تغیر" کے معاملے کو اٹھانے کی کوشش کی مگر اس کی تمام کوششیں رائگاں گئیں۔ 
نو ڈارونیت نے یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی کہ اولین جاندار سالمے قدیم ارضی حالات کے تحت اتفاقاً وجود میں آۓ ہوں گے جیسا کہ یہ نظریہ فرض کر لیتا ہے مگر ان تجربات کا مقدر بھی وہی ناکامی رہی۔ ہر وہ تجربہ جو یہ کرنا چاہتا تھا کہ زندگی اتفاقاً وجود میں آ سکتی تھی ناکام ہوا۔ امکانی تخمینہ ثابت کرتے ہیں کہ ایک واحد سالمہ بھی ، جو مل کر زندگی تخلیق کرنے میں اتفاقاً وجود میں آ سکتا تھا اور ارتقا پسندوں کے خیال میں وہ خلیہ جو ان کے مفروضے کے مطابق قدیم، قابو سے باہر ارضی حالات کے مطابق اتفاقاً وجود میں آیا تھا۔ اسے بیسوں صدی کی جدید سامان سے آراستہ تجربہ گاہوں میں بھی کثیر الاجزا کل میں نہیں ڈھالا جا سکتا۔ 
نو ڈارونیت فوسل ریکارڈ دے بھی شکست کھا چکی ہے۔ نو ڈارونیت کے نظریے نے جن "عبوری اشکال " کا دعوہ کیا جو اس کی رو سے جاندار سالموں میں قدیم سے ترقی یافتہ جانداروں میں بتدریج ارتقا ظاہر کرتے تھیں دنیا بھر میں کہیں بھی نہیں پائ گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ علم تشریح الاعضا کے تقابلی جائزے نے بھی یہ منکشف کیا ہے کہ ایسے جاندار جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ انہوں نے ایک دوسرے سے مل کر ایک نئ شکل تشکیل دی ہے ، ان کے در حقیقت مختلف خدوخال تھے جن کو علم تشريح الاعضا کی مدد سے پرکھا گیا تھا۔ اور یہ کہ وہ کبھی بھی ایک دوسرے کے آباؤ اجداد نہیں ہو سکتے تھے۔ 
لیکن نو ڈارونیت کبھی بھی ایک سائنسی نظریہ مہیں تھا۔ یہ تو ایک نظریاتی عقیدہ تھا اگر ایسا کہنا غلط نہ ہو تو یہ ایک طرح کا " مزہب" تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نظریہ ارتقا کے حمایتی اب بھی اس کا دفاع کیے جا رہے ہیں حالانکہ اس کے خلاف اس قدر ثبوت موجود ہیں۔ تاہم ایک بات ایسی ہے جس پر ان میں اتفاق راۓ نہیں ہو سکتا کہ وہ نظریہ ارتقا کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے جو مختلف نمونے پیش کرتے ہیں ان میں سے صحیح کونسا ہے اور غلط کونسا۔ ان نمونوں میں سے ایک نہایت اہم وہ مبالغہ آمیز اور خلاف عقل منظر نامہ ہے جسے " تاکیدی توازن" کہتے ہیں۔ یعنی یعنی ایسا توازن جس میں کوئ مزید تبدیلی ممکن نہ ہو۔
سعی و خطا: تاکیدی توازن:
زیادہ تر سائنسدان جو ارتقا میں یقین رکھتے ہیں نو ڈارونیت کو آہستہ اور بتدریج ارتقا کے طور پر رائل کرتے ہیں۔ تاہم حالیہ دہائیوں میں ایک مختلف نمونہ تجویز کیا گیا ہے جسے "تاکیدی توازن" کہتے ہیں۔ 
یہ نمونہ ڈارونیت کے یکجائ یا مرحلہ وار تصور ارتقا کو رس کر دیتا ہے اور اور اس خیال کا حامی ہے کہ ارتقا بڑی عدم تسلسل والی " جستوں" یا " پھلانگوں کے زرعی سے ظہور پزیر ہوا ہے۔
اس تصور کے پہلے واویلا کناں حمایتی ۱۹۷۰ کی ابتدائ دہائ میں سامنے آۓ۔ دو امریکی قدیم حیاتیات niles Eldedge اور Stephen Jay Gould اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ نو ڈارونیت کے نظریہ ارتقا کے دعوے فوسل ریکارڈ نے مکمل طور پر باطل قرار دے دیے تھے۔ فوسلز نے ثابت کیا کہ جاندار مانیے بتدریج ارتقا پزیر نہیں ہوۓ تھے بلکہ یہ تو اچانک نمودار ہوے تھے اور مکمل شکل میں تھے۔ نو ڈارونیت پسند تو اس دلی توقع سے زندہ تھے۔۔۔۔ اب بھی انہیں یہی امید ہے کہ وہ عبوری شکلیں جو گم ہو گئ تھیں ایک روز تلاش کر لی جائیں گی۔ اس بات کا احساس کرتے ہوۓ کہ یہ امید بے بنیاد تھی ایکڈریج اور گولڈ نے پھر بھی ارتقائ عقیدہ ترک نہیں کر سکتے تھے ، اسی لیے انہوں نے نیا نمونہ پیش کیا جو " تاکیدی توازن" کے نام سے مشہور ہوا۔ دعوی یہ ہے کہ ارتقا معمولی تغیرات کے نتیجے میں مہیں بلکہ اس کا وجود تو اچانک اور بڑی تبدیلیوں کا مرہون منت تھا۔ 
یہ نمونہ کیا تھا، ایک آداب تھا، ایک فریب نظر تھا۔ مثال کے طور پر یورپی ماہر قدیم حیاتیات O.H.SHINDEWOLD جس نے ایلڈرِج اور گولڈ کے لیے راستہ ہموار کیا۔ دعوی کیا کہ دنیا کا پہلا پرندہ مگر مچھ کے انڈے سے پیدا ہوا جو کسی " بڑے عمل تغیر" کا نتیجہ تھا۔ یعنی کسی یہ کسی بڑے " ناگہانی اور غیر متوقع" تغیر کے نتیجے میں کسی جینی ساخت میں ظہور پزیر ہوا کو گا۔ ( حوالہ۔ ۱۰)۔ اسی نظریے کے مطابق زمین پر رہنے والے کچھ جانور قوی ہیکل وہیل مچھلیوں میں تبدیل ہو گۓ ہوں گے اور ایسا اچانک اور مکمل عمل تغیر یا قلب ماہیت سے ہوا ہو گا۔ یہ تمام دعوے جینی، حیاتیاتی طبعیاتی حیاتیاتی کیمیائ قوانین کی مکمل طور پر تردید کرتے ہیں۔ یہ اگنے سائنسی ہیں جتنی کہ مینڈکوں کے بارے میں جادو بھری کہانیاں جن میں مینڈک شہزادوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ تاہم اس بحران سے مایوس ہو کر جس سے ڈارونیت پسندانہ دعوی دوچار تھا کچھ ارتقا پسند ماہرین قدیم حیاتیات نے اس نظریے کو گلے لگا لیا حالانکہ یہ نظریہ خود نو ڈارونیت کی نسبت زیادہ اوٹ پٹانگ تھا۔ :)
اس نمونے کا واحد مقصد فوسل ریکارڈ میں پاۓ جانے والے ان وقفوں کے لیے جواز پیش کرنا تھا جو نو ڈارونیت پسندانہ نمونہ پیش نہیں کر سکتا تھا۔ تاہم یہ بات اپنے اندر بمشکل کوئ دلیل و استدلال رکھتی ہے کہ فوسل ریکارڈ کے درمیانی وقفوں کے لیے جواز پیش کرنے کی کوشش میں اسے پرندوں کے ارتقا میں تلاش لیا جاۓ اور اس کے ساتھ دعوی یہ کیا جاۓ کہ " ایک پرندہ اچانک مگر مچھ کے انڈے سے پھدک کر باہر نکل آیا تھا"۔ اس لیے کہ ارتقا پسندوں کے اپنے اس اعتراف سے جانداروں کی ایک قسم کا دوسری قسم کے جانداروں میں ارتقا پانا جینی حقائق میں ایک بڑے اور مفید تغیر کے بغیر ممکن نہیں۔ تاہم کوئ جینی تبدیلی خواہ وہ جس قسم کی بھی ہو نہ تو جینی حقائق و علم کو بہتر بناتی ہے اور نہ اس میں نئ معلومات کا کچھ اضافہ کرتی ہے۔ یہ تبدیلیاں تو جینی حقائق کو ابتد کرتی ہیں پس یہ " اجتماعی تبدیلیاں" جن کا تصور منظم توازن والے نمونے نے کیا جینی حقائق میں صرف مجموعی یا " بڑی" تخفیف یا نقائص پیدا کریں گے۔ 
مزید برآں یہ کہ " منظم توازن " کا نمونہ تو پہلے ہی قدم پر گر کر ڈھیر ہو جاتا ہے کیونکہ یہ زندگی کی ابتدا کے بارے میں سوال کا جواب دینے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ یہی وہ سوال بھی ہے جو نو ڈارونیت پسندانہ نمونے کی آغاز ہی میں تردید کر دیتا ہے۔ چونکہ ایک واحد لحمیہ بھی اتفاقاً پیدا نہیں ہوا اس لیگ یہ بحث کہ کیا وہ مانیے جو ان کھربوں لحمیوں سی بنے کسی " پابند وقت" کے اندر یا بتدریج ایک ارتقا سے گزرے ہوں گے ، لغو اور بے معنی سی لگتی ہے۔ 
آئندہ سیریز میں ہم نو ڈارونیت پسندانہ نمونے کے دو خیالی میکانکی عمل پہلے زیر جائزہ لائیں گے اور اس کے بعد ہم زندگی کی ابتدا کے بارے میں سوال کرین بیمے جو اس نظریے کو باطل قرار دیتا ہے۔ ایسا کرنے سے قبل آپ کو یہ یاد دلانا مفید ہو گا کہ جو حقیقت ہر مرحلے پر ہمارے سامنے آۓ گی وہ یہ ہے کہ ارتقائ منظر نامہ ایک جادو بھری کہانی ہے، ایک فرضی و خیالی داستان ، ایک فریب جو مکمل طور پر حقیقی دنیا اے مختلف ہے۔ یہ وہ منظر نامہ ہے جو پچھلے ۱۴۰ برسوں سگ دنیا کو دھوکہ دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہم ان حالیہ سائنسی دریافتوں کے ممنون ہیں کن کی وجہ سے اس کا مسلسل دفاع ممکن ہو گیا ہے۔ والسلام 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات۔ 
Steven M. Stanley, Macro evolution: Pattern and Process, San Francisco: W. H. pp. 35, 159